All News Daily Basis Updates and also all type news current affairs politicians

More News

https://sitaratv786.blogspot.com/

Wednesday 29 January 2020

عثمان بزدار پر اظہار اعتماد

عثمان بزدار پر اظہار اعتماد                      

 وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ لاہور کے موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر ایک مرتبہ پھر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مخالفین کو یہ باور کروا دیا ہے کے عثمان بزدار سے بہتر اور بڑھ کر اس صوبے کے لیے کوئی اور نہیں ہو سکتا اگر نیا وزیر اعلیٰ لایا گیا تو 20 دن بھی نہیں ٹکے گا۔ان کے اس اعتماد سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو مزید بھرپور طریقے سے کام کا موقع ملا ہے اور انہوں نے ثابت قدم رہتے ہوئے اپنے منصوبوں پر پہلے سے زیادہ توجہ مبذول کر لی ہے۔دوسری جانب ان کے مخالفین کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے اور کئی روز سے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے خواب دیکھنے والے سکتے میں آگئے ہیں۔خیر جب انسان محنت اور ایمانداری سے اپنے کام کے ساتھ مخلص ہو تو دشمن اسے زیادہ تنگ کرتے ہیں اور اس کی جڑیں کاٹنے اور ناکامی کا خواب آنکھوں میں سجائے اس کے لیے من گھڑت سوچ ذہن میں لیے اس کے لیے طرح طرح سے الٹے سیدھے ھتکنڈے آزماتا ہے لیکن جب اللہ نے کسی انسان کو عزت دینی ہو تو ساری دنیا مل کر بھی اس انسان کو ناکامی یا ذلت نہیں دے سکتی۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی آج کل ایسے ہی لوگوں کے شکنجے میں تھے لیکن اللہ نے انہیں ایک بار پھر سرخرو کیا اور کامیابی نے ان کے قدم چومے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ڈیڑھ سال مکمل ہو چکا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اس منصب پر بیٹھ کر بڑی بہادری اور ہمت کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں اور میرا خیال ہے کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے وسیم اکرم کو خوب پالش کر لیا ہے۔اب وہ زیادہ نکھر کر اس صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنے آپ مصروف عمل رکھے ہوئے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو نا صرف ناقابل تسخیر بنا دیا ہے بلکہ ان کے شانہ بشانہ اور تحریک انصاف کی حکومت کے پورے پانچ سالوں تک ان پر اطمینان کا اظہار اس بات کی نوید ہے کے بہت جلد اس صوبے میں لوگ سابقہ وزیر اعلیٰ کو بھول کر عثمان بزدار کے گن گاتے نظر آئیں گے۔یہ درست ہے کہ وہ وزیراعلی کے طور پر اس منصب پر پہلی بار فائز ہوئے لیکن یہ کوئی نہیں دیکھ رہا کہ ماضی کے وزیراعلی شہبازشریف جب پہلی بار وزیراعلی بنے تو انہیں کونسلر رہنے کا بھی تجربہ نہ تھا وہ چیمبر آف کامرس کی رکنیت تک ہی محدود رہے - عثمان بزدار تو ان سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں - انہو ں نے ڈیڑھ سال کے عرصہ میں صوبہ بھی میں بھر پور انقلابی اقدامات کا آغاز کیا اور ہر شعبہ میں عوامی فلاح و بہبود کے ایسے اقدامات کئے جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی - یہی وہ صورت حال تھی جس پر اپوزیشن اور اقتدار سے محروم طبقہ پریشان ہوا اور ان کے خلاف منفی پراپیگندہ کا طوفان کھڑا کردی۔

اگر حقائق دیکھے جائیں تو پنجاب میں مختصر ترین عرصہ میں وزیراعلی عثمان بزدار نے کیا کچھ نہیں کیا -صوبہ میں 7 نئی یونیورسٹیوں کے علاوہ 4 ٹیکنیکل یونیورسٹیوں اور 43 نئے کالجز کا قیام کا منصوبہ شامل ہے - اسی طرح محکمہ صحت کے شعبے میں 5 مدر اینڈ چائلڈ ہسپتالوں سمیت 9 نئے ہسپتال قائم کرنے کا منصوبہ، دیہات میں 194طبی مراکز صحت میں علاج معالجہ کی 24 گھنٹے سہولیات کی دستیابی کو یقینی بنایاگیاہے - ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد کیلئے صحت کارڈ دیئے جاچکے ہیں -غریب اور محروم طبقہ کے لئے لاہور سمیت دیگر ڈویڑنوں میں پناہ گاہیں تعمیر کی گئی ہیں - نیا پاکستان منزلیں آسان کے تحت دیہات کی 1500 کلو میٹر طویل سڑکوں کی تعمیر و توسیع کی گئی ہے -جلال پور کینال کا سنگ بنیاد رکھاگیاہے جس پر 32 ارب 70 کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے -اس کے تحت 43 کلومیٹر رابطہ سڑکیں بھی تعمیر کی جائیں گی - فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کا قیام عمل میں لایاجارہاہے -اس سے 4 لاکھ افراد کو روزگارکے مواقع حاصل ہوں گے جبکہ بالواسطہ طورپر 10 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے - کم آمدنی والے افراد کی رہائشی سہولیات کی فراہمی کیلئے وزیراعظم کے وڑن کے مطابق نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ کا شاندار منصوبہ شروع کیاگیاہے - مختلف محکموں کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے سات پالیسیاں تشکیل دی گئی ہیں جن میں انڈسٹریل پالیسی، سپیشل ایجوکیشن پالیسیاں غیرہ وغیرہ شامل ہیں -محکمہ صحت میں ڈاکٹروں سمیت 25 ہزار خالی آسامیو ں پر اہل افراد کو بھرتی کیاگیاہے - پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ او رپنجاب ولیج پنچائیت انڈ نیبر ہڈ کونسل اکٹ سمیت 30 قوانین کی منظوری دی گئی جبکہ 35 قوانین منظوری کے مراحل میں داخل ہوچکے ہیں -وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار خاموش طبع شخصیت کے مالک ہیں وہ بڑھکیں اور شو ر مچانے کے قائل نہیں وہ خاموشی سے اپنا کام کرتے جارہے ہیں کیونکہ کام بولتے ہیں
Share:

بسنت پنچمی

بسنت پنچمی

موسمِ بہار جسے سنسکرت میں رْت مہاراج بھی کہا جاتا ہے، ہمارے ہاں ابتداء ہی سے غیر معمولی نوعیت کے تہواروں کا مرکز رہا ہے، چنانچہ ماگھ کے شروع ہوتے ہی جہاں سردی اپنا اثر کھونے لگتی ہے تو موسمی تہواروں کی آمد شروع ہو جاتی ہے، چیت اور بیساکھ کے گوناگوں تہواروں کی ابتدا ماگھ کے وسط میں آنے والے پہلے ریتو رنگ بسنت پنچمی کی رونق چہار سْو پھیلنے لگتی ہے۔ گریگورین کیلنڈر کے مطابق اس سال بسنت پنچمی 29 جنوری کو منائی جا رہی ہے، چونکہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اب ہم ایک درآمدشدہ تہذیب کے رسیا ہو چکے ہیں، اس لئے آج اپنے تہذیبی تہوار منانا ہمیں معیوب لگتا ہے، حالانکہ کہاں نظریہ، کہاں علاقہ، کہاں تہذیب، کہاں تصّور؟ تمدّن و عقائد میں زبردست بْعد کے باوجود آج بھی ہم یہ انتہائی اہم نکتہ نہیں سمجھ سکے کہ سوچ جس قدر بھی طاقتور ہو جائے، تمدّن کو معدوم نہیں کر سکتی۔ بسنت پنچمی ہنود، اہلِ اسلام، سکھ اور جین مت کے ماننے والوں کا جغرافیائی تہوار ہے، جس کو آج سے چند دہائیاں قبل بلا کسی نظریاتی دقّت کے یہاں کے باسی مل جل کر مناتے رہے ہیں، البتہ قیامِ پاکستان کے بعد علاقے، تہذیب و تمدّن، نظریات اور شخصیات کی تقسیم کے ساتھ ساتھ تہوار بھی اِدھر اْدھر ہو گئے۔ بسنت پنچمی ایک غیر معمولی ریتو تہوار ہے، جس کی باقاعدہ تقریبات ہمارے معروف صوفی سلسلہ چشتیہ میں بھی قدرے تکریم سے منائی جاتی رہی ہیں، چنانچہ حضرت بابا صاحب خواجہ نظام الدین اولیاء محبوبِ الہٰی کے خاص نیازمند طوطیِ ہند حضرت امیر خسرو دہلوی کی متعدد نظمیں اور بندشیں اسی تہوار سے منسوب ہیں۔
بسنت پنچمی دراصل ریتو بہار کی آمد کا وہ اہتمام ہے، جس میں ہنود سرسوتی دیوی کی پوجا کرتے ہیں۔پنجابی مسلمانوں کے ہاں اس تہوار میں پتنگ بازی کے مقابلے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں گوکہ اس تہوار کا وہ مخصوص تاثر تو اب باقی نہیں رہا، لیکن پھر بھی کبھی کبھار بہار کی آمد پر مغربی پنجاب کے کچھ علاقوں میں رونق دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ پتنگ بازی پنجاب کی خاصی قدیم تہذیبی روایت ہے، جس پر پچھلے چند سال سے اب مستقل حکومتی قدغن لگ چکی ہے۔ دراصل ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس وقت اپنی تہذیب سے جڑا ہر شعار یا تو مذہبی امتناع کے سبب ترک کر دیا ہے یا پھر مقتدر قوتوں کی بے جا پابندیوں کے سبب ہم سے ہماری تہذیب کی ہر رنگینی چھن گئی ہے۔
صورت کوئی بھی ہو، اس خطے کے باسیوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ تہوار دراصل تہذیب کی وہ انمٹ یادداشت ہوتے ہیں، جن کے وسیلے سے نئی نسلیں اپنے تمدّن سے روشناس ہوتی رہتی ہیں، مگر ہم اس کے برعکس آج اپنے حقیقی تمدّن کی بجائے ایک بالکل درآمدشدہ تمدّن کے اسیر ہو چکے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اب اسی درآمدشدہ تمدّن پر نہ صرف فخر محسوس کرتے ہیں،بلکہ اپنے حقیقی اور اصلی تمدّن کا نام لیتے ہوئے بھی عار محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ من حیث القوم یہ بہت بڑی زیادتی ہوئی ہے جس کا خمیازہ نہ صرف ہم بھگت رہے ہیں، بلکہ آنے والی نسلیں بھی اس کے نظریاتی گزند سے محفوظ نہیں ہو پائیں گی۔ تہذیب و تمدّن جغرافیائی خطوط سے بنتے ہیں، کہ نظر و فکر سے۔ نظر و فکر کا تعیّن انسانی خصائل کی پنپ میں زبردست کردار ادا کرتا ہے، مگر فکر میں اتنی قوت نہیں ہوتی کہ وہ آپ سے آپ کی جغرافیائی شناخت چھین لے، چنانچہ عرب اور خراسانی جنگجوؤں، مغل سلاطین اور فرنگیوں کے زبردست فکری تسلط کے باوجود بھی برِصغیر میں بدوی، خراسانی اور برٹش کلٹ نہ پنپ سکا۔
پنجابی بے شک اہلِ اسلام ہوں یا سکھ، اْن کی طبیعاتی اور مابعداطبیعاتی ترکیب سے پنجابیت نہیں کریدی جا سکتی، یہی وجہ ہے کہ درآمدشدہ تہذیبوں کی زبردست ترغیب کے باوجود آج بھی اس خطے کے باسی اپنے رہن سہن کو نئی تہذیب کے سانچے میں نہیں ڈھال سکے۔ سندھو تہذیب قریباً ایک ہزار سال تک غیروں کے فکری تشدّد کے نرغے میں رہی،مگر آج تک اپنی حقیقی تمدنی شناخت نہیں کراسکی۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ بہت پہلے ہمارے گھروں میں بہار کی آمد پر نوجوان لڑکیاں بسنتی رنگ کے کپڑے پہنتیں اور بزرگ عورتیں گْڑ کا شربت اور ڈالہ، یعنی پِسی ہوئی گندم کا بھات بنا کر ہمیں عزیز و اقارب کے ہاں بانٹنے کا کہتیں۔ پنجابی صوفیوں نے یہاں کے تمدّن کو من و عن قبول کیا اور جو ہنود مسلمان ہو جاتے،اْنہیں بھی اپنے تمدّن پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے، ہاں تبدیلی دل کی دنیا میں لازماً بپا ہوتی، چنانچہ کرشن جی کو ماننے والے جب عزت مآب حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خبرِ صادق کی تصدیق کرتے تو وہ کبھی بھی کرشن جی کے بھگتی مارگ سے منکر نہ ہوتے، بلکہ اپنے دل کی دنیا کا رْخ ایک روشنی سے موڑ کر دوسری روشنی کی جانب مرکوز کر لیتے، تبھی تو حضرت امیر خسرو دہلوی جیسے عظیم المرتبت صوفی ایک ترک نژاد ہو کر بھی اس خطے کے تمدّن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اپنے مرشد کے مرشدمعروف پنجابی صوفی بزرگ حضرت بابا فرید سے عقیدت کو اسی تہذیبی رنگ میں بیان کرتے ہیں جو برصغیر میں رائج تھا،فرماتے ہیں:
بسنتی چولہ پہن کے خسرو پی کو رِجائے
دین بدائی وَلیَن سارے گنج شکر گھر آئے
مذہب کی انتہائی معقول اور امن و آشتی پر مبنی تعبیر اس خطے کے صوفیاء کی وساطت سے ہی مروج ہوئی، چنانچہ اس خطے کے صوفیاء نے کبھی اس خطے کے لوگوں کو اپنی تہذیب سے روگردانی کی ترغیب نہیں دی، بلکہ انہوں نے اپنی تہذیب ہی کی لو سے لوگوں کے دل روشن کئے۔


Share:

شیخ رشید اِن ٹربل

شیخ رشید اِن ٹربل

شیخ رشید پر بھی مشکل وقت آ گیا…… چیف جسٹس گلزار احمد کے ریڈار پر وہ ایسے آئے ہیں کہ اب آسانی سے جان چھوٹتی نظر نہیں آ رہی۔ ساری زندگی دوستوں کی ڈگڈی بجاتے گذر گئی،اب اُن سے ریلوے کی حالت ِ زار پر سوال ہوئے ہیں تو شیخ رشید احمد آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے اُن کے بارے میں پہلے دن یہ دلچسپ جملہ کہا کہ وہ کہاں ہیں،جو آئے روز حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں،وہ ریلوے کی طرف توجہ نہیں دے سکتے تو اس کی جان چھوڑ دیں، پھر جب شیخ صاحب کو اگلے روز طلب کیا گیا تو چیف جسٹس نے اُنہیں اس بات پر آڑے ہاتھوں لیا کہ ریل گاڑی کے حادثے میں 78 افراد زندہ جل گئے،گارڈز اور ڈرائیور پر ذمہ داری ڈال کر آپ خاموش ہو گئے،کسی بڑے کو ذمہ دار قرار نہیں دیا؟ اس پر شیخ صاحب فوراً بولے کہ بڑوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔یہاں چیف جسٹس نے یہ کہہ کر انہیں لاجواب کر دیا کہ محکمہ ریلوے کے بڑے تو آپ ہیں، آپ کو ذمہ داری قبول کر کے فوری مستعفی ہو جانا چاہئے تھا۔
کسی وزیر کے لئے سب سے بڑی ہزیمت یہ ہوتی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس اُسے یہ کہیں کہ اگر اسی کا محکمہ ایسے ہی چلناہے تو پھر ہم اسے بند کر دیتے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ برس سے شیخ رشید احمد ریلوے کی ترقی کے بڑے بلند و بانگ دعوے کر رہے تھے،اب ایک ہی سماعت میں اُن کے دعوؤں کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دُنیا میں بلٹ ٹرینیں چل رہی ہیں اور یہاں وہی دو سو سال پہلے کا ریلوے نظام جاری ہے،جس میں سفر کرنے والے ہر مسافر کی جان خطرے میں رہتی ہے، سہولتیں ندارد ہیں اور سفر ایک مصیبت بن چکا ہے۔ریلوے سٹیشنوں سے لے کر گاڑیوں تک کے حالات دِگر گوں ہیں،کوئی پوچھنے والا نہیں، اربوں روپے کا خسارہ اس پر مستزاد ہے۔
ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ شیخ رشید احمد کو ریلوے کا وزیر بنا کر بہت بڑا ظلم کیا گیا ہے۔ ایک قومی ادارے کو ایسے شخص کے سپرد کر دیا گیا ہے، جس کی اُس میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ تجربہ…… جو شخص سارا دن میڈیا پر آنے کے لئے بے تاب رہے،اُسے اپنے محکمے کی طرف توجہ دینے کی فرصت کہاں ہوتی ہے؟ جو زبانی جمع خرچ سے اپنا کام چلاتا ہو،اُس کی ہنڈیا تو اِسی طرح بیچ چوراہے کے پھوٹنی ہے،جیسے سپریم کورٹ میں اُن کی پھوٹی…… شیخ صاحب بڑے ذہین آدمی ہیں،انہیں پتہ ہے روزانہ ایک بیان وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعریف میں دے کر وہ محفوظ و مامون ہو جاتے ہیں۔انہیں کیا معلوم تھا کہ ایک چنگاری چیف جسٹس گلزار احمد کی شکل میں بھی موجود ہے، جو سارا کچا چٹھا کھول سکتی ہے۔
ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو سپریم کورٹ نے ریلوے کی حالت ِ زار بارے کیس کی سماعت کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے،وہ وزیراعظم عمران خان کے لئے ہے،کیونکہ ملک کے چیف ایگزیکٹو وہ ہیں۔اُن کا یہ کہنا بھی ایک طرح سے حکومت پر تنقید ہی ہے کہ اتنے سنگین حادثے کے باوجود کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی،نہ ہی احتساب کیا گیا؟ کم از کم ریلوے کے وزیر سے تو استعفا لیا جانا چاہئے تھا۔وہ اگر خود مستعفی ہونے کی اخلاقی جرأت نہیں کر سکے تو وزیراعظم عمران خان کو یہ کام کرنا چاہئے تھا، کیونکہ وہ مسلم لیگ(ن) کے زمانے میں کسی ریلوے حادثے پر سعد رفیق سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے تھے۔ شیخ رشید نے چیف جسٹس کے سامنے یہ عذر پیش کیا کہ جو آڈٹ رپورٹ سپریم کورٹ کے سامنے ہے، وہ ان کے دور کی نہیں …… کیا وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ان کے دور میں ریلوے خوشحال ہو گیا ہے، اس میں کرپشن کم ہو گئی ہے،اس کی کارکردگی مثالی ہو چکی ہے، اس میں مسافروں کو اعلیٰ معیار کی سہولتیں پیش کی جا رہی ہیں؟ جب اس دور کی رپورٹ آئے گی تو شائد پچھلے ریکارڈ ٹوٹ جائیں۔ شیخ رشید احمد شور شرابہ ڈال کر کابینہ کے اندر بھی اپنے محکمے کی کارکردگی کو چھپا جاتے ہیں۔
عمران خان بھی ان کے حوالے سے مصلحتوں کا شکار ہیں وہ ان کی طرف سے تعریفوں کے چند بول سن کر خاموش ہو جاتے ہیں، حالانکہ انہیں شیخ رشید احمد سے بھی باز پرس کرنی چاہئے کہ انہوں نے ریلوے کی بہتری کے لئے کیا کِیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ میں ریلوے کو بند کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور چیف جسٹس نے یہ ریمارکس دیئے ہیں کہ ملک میں اس سے زیادہ کوئی کرپٹ ادارہ نہیں تو یہ بات وزیراعظم عمران خان کے لئے ہے، شیخ رشید کے لئے نہیں، کیونکہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کے دعوے عمران خان نے کئے ہیں،شیخ رشید احمد نے نہیں۔
پہلے بھی ان کالموں میں کئی بار یہ ذکر ہو چکا ہے کہ شیخ رشید احمد کے دور میں ریلوے کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے۔ خاص طور پر حادثات اور نظام الاوقات کے حوالے سے اسے پاکستان ریلوے کا بدترین دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ جس روز سپریم کورٹ میں ریلوے کیس کی سماعت ہو رہی تھی، اسی روز دو حادثات کی وجہ سے قومی ریلوے ٹریک بند پڑا تھا اور گاڑیوں کی آمد و رفت خیبر سے کراچی تک رکی ہوئی تھی۔ شیخ صاحب نے ریلوے میں حقیقی ترقی کا سامان کرنے کی بجائے دو نمبر طریقہ ایجاد کیا۔ انہوں نے گاڑیوں کی تعداد بڑھانے کا ڈرامہ رچایا۔ ہر دو چار ہفتے بعد وزیراعظم عمران خان سے نئی ٹرین کا افتتاح کرا کے یہ تاثر دیا کہ جیسے ریلوے میں انقلاب آ گیا ہے، حالانکہ اس طریقے سے انہوں نے محکمے کا ”ٹائی ٹینک“ غرق کر دیا۔ مختلف گاڑیوں سے ان کی بوگیاں کاٹ کر نئی خود ساختہ ٹرینیں بنائی گئیں۔
ایک ٹرین لاہور پہنچتی تو اس کی بوگیوں سے دوسری ٹرین چلتی۔ اگر پچھلی ٹرین ہی نہ وقت پر نہ آئے تو اگلی ٹرین کیسے چل سکتی ہے؟یوں پورے ملک میں گاڑیاں دس دس گھنٹے لیٹ پہنچ رہی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کے دور میں اگرچہ ریلوے کے حالات اچھے نہیں تھے، تاہم ایک خوبی جس کی وجہ سے لوگ ریلوے کی طرف متوجہ ہوئے، وہ گاڑیوں کا وقت پر پہنچنا اور چلنا تھا۔ اب مسافروں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ کوئی ٹرین کبھی وقت پر نہیں پہنچتی، جب اسی شعبدے بازی سے ریلوے کے نظام الاوقات کا بیڑہ غرق ہو گیا تو اب ان ٹرینوں کو بند کیا جا رہا ہے۔ محکمے دو نمبر کاموں سے نہیں چلتے، اُن کے لئے محنت کرنا پڑتی ہے، توجہ اور وقت دینا پڑتا ہے۔ شیخ رشید احمد کو سیاست سے ہی فرصت نہیں،وہ ہر معاملے میں ٹانگ اڑاتے ہیں،سوائے ریلوے کی طرف توجہ دینے کے۔اُن سے نواز شریف کے خلاف جتنا چاہو بلوا لو،شہباز شریف پر طنز کے جتنے چاہیں تیر چلا دیں گے۔بلاول بھٹو زرداری کو جتنی بار بلو رانی کہنا ہے، کہیں گے۔ رات کو کسی نہ کسی اینکر کے ساتھ بیٹھ کر سیاست بھی جھاڑیں گے اور شیخی بھی بگھاریں گے،مگر مجال ہے کہ اپنی اصل ذمہ داری کی طرف توجہ دیں۔
سپریم کورٹ نے ریلوے کے حالات بہتر بنانے اور کراچی میں سرکلر ریلوے چلانے کے لئے پندرہ دن کا وقت دیا ہے۔موصوف جب عدالت سے باہر آئے توکہا کہ چیف جسٹس کہیں تو مَیں استعفا دے دوں گا……چیف جسٹس کہہ دیں تو وہ اپنے عہدے پر رہ ہی کیسے سکیں گے؟……اصل بات تو یہ ہے کہ وہ خود ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عہدہ چھوڑ دیں،مگر کہاں۔دوسروں پر تنقید کرنا آسان اور خود پر تنقیدی نگاہ ڈالنا مشکل ہے۔ شیخ رشید ان پندرہ دِنوں میں کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ ٹی وی سکرین پر نظر آئیں۔ساتھ ہی عدالت کے حق میں اُن کے بیانات میں بھی تیزی آ سکتی ہے،جبکہ عمران خان کی تعریف کرنا تو وہ اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔
کیا ان رویوں سے وہ اپنے محکمے کی بُری کارکردگی چھپا لیں گے،کیا جسٹس گلزار احمد اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کی عقابی نگاہوں سے معاملات کو اُوجھل رکھ سکیں گے میرے نزدیک شیخ رشید اب مشکل میں ہیں، معاملہ سیاسی نہیں،عدالتی ہے، زبانی دعووؤں کا نہیں، عملی ریکارڈ کا ہے۔یہ ممکن نہیں کہ چیف جسٹس ریلوے کے معاملے کو کسی کنارے لگائے بغیر اُسے بھول جائیں۔اُن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ جب کوئی معاملہ اُن کے نوٹس میں آ جاتا ہے تو اُسے درمیان میں نہیں چھوڑتے۔کراچی کے کتنے ہی معاملات وہ حل کر آئے ہیں اور سرکلر ریلوے کو بھی ہر صورت میں مکمل کرا کر چھوڑیں گے۔ شیخ رشید احمد عمران خان کی طرف سے تو بے فکر ہو کر بیٹھے ہوئے تھے،لیکن سپریم کورٹ کے ریڈار کی زد میں آ کر انہیں کچھ کر کے دکھانا ہو گا،یہاں شاید اُن کے لطیفے، شگوفے اور جملے بازیاں مشکل آسان نہ کر سکیں۔

Share:

رنجیت سنگھ کا پنجاب

رنجیت سنگھ کا پنجاب

مہاراجہ رنجیت سنگھ پنجاب کے وہ عظیم رہنما تھے جن کی فتوحات نے اس کی سرحدوں کو پشاور سے ملتان اور دوسری طرف افغانستان اور کشمیر تک پھیلا دیا تھا۔ وہ پنجاب کی دھرتی کا سپوت تھا مگر کیا کیا جائے کہ ہم تاریخ کو بھی مذہب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ رنجیت سنگھ مذہبی طور پر ایک سکھ تھے، مگر انہوں نے پنجاب کو ایک سکھ ریاست سے سیکولر ریاست بنانے کی کوشش کی تھی۔ چھوٹی عمر سے ہی انہوں نے پنجاب میں سکھ تاریخ کی پہلی ریاست قائم کی جو 50سال تک قائم رہی، رنجیت سنگھ سے قبل سکھ قوم جتھوں اور دھڑوں میں تقسیم تھی مگر اس کے بعد سکھ قوم خالصہ جتھہ میں متحد اور یکجا ہو گئی یہ اتحاد آج بھی قائم ہے اور سکھ قوم مسلسل اپنی الگ ریاست کیلئے جدو جہد میں مصروف ہے۔ خالصتان تحریک بھی اسی عزم اور جذبے کی مرہون منت ہے جو رنجیت سنگھ سکھ برادری میں پھونک گئے تھے، 18ویں صدی کے آخر ی سالوں میں جب مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی توہندوستان پر قبضے کے خواب نے تمام ہندو راجوں کو متحد کر دیا اوران کا اقتدارہندوستان پر اس حد تک قائم ہو گیا کہ مغل بادشاہ، شاہ عالم کے بارے میں یہ کہاوت مشہور ہو گئی ”شاہ عالم، از دلی تا پالم“ پالم وہ جگہ ہے جہاں آجکل دلی ائرپورٹ ہے، ایسے میں شاہ ولی اللہ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالی افغانستان کی سر زمین سے بھاری فوج کے ساتھ حملہ آور ہوئے اور مرہٹوں کی شکل میں تمام ہندوستان کی متحدہ فوج کو شکست دیکر ہندوستان کو ہندو توا بنانے کا خواب چکنا چور کر کے افغانستان واپس روانہ ہو گئے، ابدالی کے جانے کے بعد پورے بر صغیر میں مرکزیت کا خاتمہ ہو گیا، ہر کوئی اپنے اپنے علاقے کا بالادست حکمران بنتا چلا گیا، جس خطے میں سب سے زیادہ بے چینی تھی وہ پنجاب تھا۔
سکھ اکبر کے دور سے ہی جتھوں کی صورت میں مسلح جدوجہد کر رہے تھے،اور بڑی حد تک گوریلا جنگ میں منظم ہو چکے تھے،ان کے ہر علاقے خاندان برادری کے حساب سے گروہ تشکیل پا چکے تھے، ان گروہوں کو مسل کہا جاتا تھا، پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مسلیں تھیں، سب کی سب خود مختار اور ایک دوسرے سے بر سر پیکار،مگر جب کبھی باہر سے حملہ ہوتا تو تمام مسلیں مل کر اس کا مقابلہ کرتی تھیں۔ ان ہی بارہ مسلوں میں سے ایک مسل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی،جس کے سربراہ سردار مہا سنگھ تھے ان کے گھر 1780ء میں ایک لڑکا پیدا ہوا، جس کا نام رنجیت سنگھ رکھا گیا، ایک سال کی عمر میں خسرہ کی وجہ سے اس بچے کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی،بچے کو 12سال کی عمر میں ہی فوجی تربیت کیلئے استادوں کے سپرد کر دیا گیا،17سال کی عمر میں باپ نے دوسری مسلوں کیساتھ جنگوں پر روانہ کر دیا کہ سردار مہا سنگھ خود ایک مسل سکر چاکیا کا سربراہ تھا،اور اس کا تعلق بڑے سکھ جتھے ڈوگرہ کے مقابل دوسرے بڑے اور برسر پیکار جتھے سندھیانوالے سے تھا۔ صرف 20سال کی عمر میں رنجیت سنگھ اپنی مسل کا سربراہ بن گیا، مسل کی سربراہی ملتے ہی ذہین اور خوش قسمت رنجیت سنگھ ایک بڑی سلطنت کا خواب دیکھنے لگا، اپنے اس ارادے کی تکمیل پر اس نے نہ صرف سوچ بچار کی بلکہ پیش قدمی شروع کر دی، ہریانہ سے ملتان،پشاورسے کشمیر تک کے علاقے کا طاقتور ترین حکمران بن گیا۔
رنجیت سنگھ کی پیدائش سے پہلے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہمراہ ایک منظم برطانوی فوج ہندوستان کی سرزمین پر اپنی کاروائیوں کا آغاز کر چکی تھی، قبل ازیں برصغیر میں مختلف لوگوں کو پانچ ہزاری دس ہزاری کے منصب دیئے جاتے تھے جو جنگ کی صورت میں افرادی قوت فراہم کرتے،کسی بھی راجواڑے میں باقاعدہ منظم تربیت یافتہ فوج کا کوئی رواج نہ تھا۔ رنجیت سنگھ جدید تربیت یافتہ منظم فوج کے قیام کا خواہش مند تھا، اس مقصد کیلئے اس نے فرانس، اٹلی سے جنگ اور تربیت کے ماہر چار جرنیلوں کواپنی فوج کی تربیت کیلئے بلوایا، ان جرنیلوں نے سکھوں کی ایک فوج منظم کی جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا، اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں شالا مار باغ کے قریب تھا جسے بدھو کا آوا کہا جاتا تھا جس کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔ فوج کی تنظیم و تربیت کرتے وہ بھول گیا کہ ریاست کو بہتر انداز سے چلانے رعایا کو منظم رکھنے امن و امان کیلئے ایک اچھی انتظامیہ اور عدلیہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک مملکت میں پیدا ہونیوالے ہر مسئلے کا حل فوج کا استعمال کر کے نکالا جا سکتا تھا، وہ چھوٹے چھوٹے انتظامی امور کیلئے بھی فوج کو بھیجتا، مالیہ کی وصولی،ڈکیتی چوری،قبائل میں جھگڑا، ہر موقع پر فوج سے کام لیا جاتا، انصاف کی فراہمی کا بھی کوئی الگ سے ادارہ تھا نہ نظام، جگہ جگہ فوجی عدالتیں لگائی جاتیں اس کے باوجود فوری انصا…


Share:

Tuesday 28 January 2020

عمران خان نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ناقابل تسخیر بنا دیا

عمران خان نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ناقابل تسخیر بنا دیا


 وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار قسمت کے بہت دھنی ہیں کہ جب بھی ان کی کشتی ’’تبدیلی‘‘کے بھنور میں ڈوبنے لگتی ہے تب وزیر اعظم عمران خان سپر ہیرو کی طرح انہیں بچانے پہنچ جاتے ہیں۔

اس سے قبل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں میاں نواز شریف کو قسمت کا دھنی یعنی ’’LUCKY ‘‘کہا جاتا تھا کہ جب بھی حالات ایسے بن جاتے کہ میاں صاحب کے بچنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی تب اچانک سے کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا کہ میاں صاحب پر چھائے تمام سیاہ بادل چھٹ جاتے لیکن آخر کار ایک روز ان کی قسمت بھی ساتھ چھوڑ گئی تھی۔

 
گزشتہ دو ، تین ہفتوں سے یہ یقین ہو چلا تھا کہ سردار عثمان بزدار کی رخصتی کا وقت آن پہنچا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم لیگ لیگ (ق) ہے کیونکہ آج تک مسلم لیگ (ق) کو سردارعثمان بزدار کا ’’محافظ‘‘ سمجھا جاتا تھا لیکن جب یہ خبریں جن میں کچھ نہ کچھ صداقت محسوس ہوتی ہے تیزی سے گردش کرنے لگیں کہ مسلم لیگ(ن) نے پنجاب کی وزارت اعلی چوہدر ی پرویز الہی کو دینے کیلئے ان کی حمایت کا فیصلہ کر لیا ہے تو تحریک انصاف میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور وزیر صنعت پنجاب میاں اسلم اقبال سمیت کئی صوبائی وزراء اور چند اراکین اسمبلی نے بھی شیروانیاں سلائی کروانے کا ارادہ کر لیا جس کی وجہ سے صورتحال پیچیدہ ہوتی چلی گئی جبکہ تحریک انصاف کے اندر بننے والے فارورڈ بلاک نے مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ بنا دیا تب اچانک عمران خان بھرپور ’’جلالی‘‘ روپ میں نمودار ہوئے اور انہوں نے دورہ لاہور کے دوران کابینہ ارکان اور تحریک انصاف کی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ جب تک عمران خان وزیر اعظم ہے تب تک سردار عثمان بزدار وزیر اعلی پنجاب رہیں گے۔
خان صاحب نے یہ بھی بتا دیا کہ انہیں سب معلوم ہے کہ وزیر اعلی بننے کی سازش کون کون کر رہا ہے لیکن سب جان لیں کہ اگر عثمان بزدار کو تبدیل کیا گیا تو نیا وزیر اعلی 20 دن بھی نہیں چل پائے گا اور اسے بھی ہٹا دیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا اپنے وسیم اکرم پلس کیلئے ’’عشق‘‘ ڈھکا چھپا نہیں ہے کیونکہ گزشتہ سترہ ، اٹھارہ ماہ کے دوران پنجاب حکومت کی’’کارکردگی‘‘ نے پنجابیوں کی تو چیخیں نکلوا دی ہیں لیکن کپتان اپنے کھلاڑی سے خوش بھی ہیں اور عثمان بزدار کی آخری دفاعی لائن اور آہنی ڈھال بنے ہوئے ہیں۔عمران خان نے شاید سردار عثمان بزدار کواپنی’’انا‘‘ کا معاملہ بنا لیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے اند ر سے اٹھنے والے شدید ترین اعتراضات اور اپوزیشن و میڈیا کی تنقید کے باوجود وہ پنجاب میں تبدیلی لانے پر رضامند نہیں ہیں جبکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو یہ یقین دلادیا گیا ہے اگر بزدار تبدیل ہوئے تو وزارت عظمی بھی نہیں بچے گی، اس یقین میں ــ’’روحانی وجدان‘‘ کا بھی عمل دخل ہو سکتا ہے۔خیبر پختونخوا میں عاطف خان اور شہرام ترکئی کو فارغ کر دینے کے فوری بعد عمران خان کے اعلان بزدارکے بعد تحریک انصاف کے اندر موجود امیدواروں کو تو شاید بریک لگ جائے لیکن اتحادی جماعت کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

تحریک انصاف کے اندر وزارت اعلی پنجاب کے سب سے مضبوط امیدوار عبدالعلیم خان تصور کیئے جاتے تھے لیکن اس وقت علیم خان پنجاب حکومت کے معاملات سے بالکل لاتعلق ہیں اور نہ ہی وہ وزارت اعلی کی سازشی دوڑ میں شامل ہیں، علیم خان نے تو عمران خان کے پرزور اصرار پر دوبارہ سینئر وزیر بننے سے بھی معذرت کر لی ہے۔ پنجاب کے وزیر صنعت میاں اسلم اقبال 25 جولائی2018 کی شب سے ہی وزیر اعلی پنجاب کے امیدوار ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے بہت مضبوط لابنگ مہم بھی جاری رکھی ہوئی ہے ۔

صحافتی شخصیت، معروف رئیل اسٹیٹ ٹائیکون سمیت ہر ممکن شخصیت کے ذریعے کوشش کی گئی ہے لیکن نہ تو عمران خان انہیں اس عہدے کیلئے قبول کرتے ہیں اور نا ہی مقتدر حلقوں کی جانب سے ’’کلیئرنس‘‘ ملی ہے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے دورہ لاہور کے دوران پارٹی کے اندر سے وزیر اعلیٰ کے امیدواروں کے بارے میں گفتگو کی، اس کا مخاطب غیر اعلانیہ طور پر میاں اسلم اقبال، راجہ یاسر ہمایوں وغیرہ ہی تھے۔ عمران خان اپنا سب کچھ داو پر لگا کر سردار عثمان بزدار کا دفاع کر رہے ہیں، ایسے میں سردار صاحب کو بھی اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے عملی طور پر اقدامات کرنا ہوں گے، صرف فیاض الحسن چوہان یا حکومتی ترجمانوں کے کہنے سے کارکردگی بہتر نہیں ہو گی۔ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج کیا گل کھلا رہی ہے اور اس کا کتنا فائدہ اور کتنا نقصان حکومت کو ہو رہا ہے یہ سبھی کو معلوم ہے ماسوائے خود حکومت کے۔

پنجاب کی وزارت اعلی میں تبدیلی کے معاملے پر مسلم لیگ(ن) اور(ق) میں رابطوں نے عمران خان کو بھی خفا کردیا ہے جبکہ سردار عثمان بزدار کی بھی ق لیگ بارے سوچ تبدیل ہو رہی ہے بالخصوص ایک قومی روزنامہ میں شائع کروائی جانے والی خبر ’’پنجاب میں ق لیگ نے عملی طور پر وزارت اعلی سنبھال لی‘‘کو تحریک انصاف نے اپنے خلاف سیاسی اعلان جنگ تصور کیا ہے۔ بعض باخبر افراد کے مطابق وزیر اعظم کے حالیہ دورہ لاہور سے ایک روز قبل ق لیگ کی دو اہم شخصیات وزیر اعلی سے ملاقات کیلئے ایوان وزیر اعلی آئیں لیکن گھنٹوں انتظار کے بعد بھی ان کو شرف ملاقات نہیں بخشا گیا جس کے بعد مذکورہ شخصیات خاموشی سے واپس چلی گئیں جبکہ اگلے روز وزیر اعظم نے لاہور میں اراکین اسمبلی سے ملاقات میں ق لیگ کو مدعو نہیں کیا۔

یہ امر تشویشناک ہے کہ منظم طریقہ سے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ سب کو علم ہے کہ نومبر سے قبل پنجاب میں چیف سیکرٹری کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے عہدے پر تعینات ایک افسر (جسے اب او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے) انتظامی معاملات میں باا ختیار تھا جبکہ ایوان وزیر اعلیٰ کی جانب سے تقرر وتبادلوں کی منڈی لگی رہتی تھی ، ریکارڈ تعداد میں ہونے والے تبادلوں نے پوری انتظامی مشینری کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔

نومبر میں عمران خان نے اپنی پسند کی نئی بیوروکریٹک ٹیم پنجاب میں تعینات کی ہے جسے با اختیار بھی بنایا ہے اور یہی وجہ تنازعہ ہے کہ سیاستدانوں کو بیوروکریسی کا با اختیار ہونا ہضم نہیں ہو رہا۔اراکین اسمبلی قانون ساز ہوتے ہیں ان کا احترام بیوروکریسی پر واجب ہے اور افسروں کو چاہییے کہ انہیں عزت اور پروٹوکول فراہم کریں لیکن افسر بیچارہ کیا کرے کہ ان کے دفتر میں آنے والے ہر رکن اسمبلی کے ہاتھ میں ٹرانسفر پوسٹنگ کی سفارش کیلئے ایک پرچی ہوتی ہے۔

رولز آف بزنس میں بہت واضح ہے کہ کسی وزیر یا رکن اسمبلی کو محکمہ میں تقرر وتبادلے بارے کوئی اختیار نہیں ہے لیکن ہمارے اراکین اسمبلی کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق تقرروتبادلے کیئے جائیں۔ بہت سے تقرر وتبادلوں کی سفارش انتخابی حلقہ میں ووٹ بنک کی وجہ سے کی جاتی ہے لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ بہت سی پرکشش سیٹوں پر ٹرانسفر پوسٹنگ کی سفارش کے پیچھے مالی مفادات کارفرما ہوتے ہیں۔
Share:

sitaratv786.blogspot.com