رنجیت سنگھ کا پنجاب
مہاراجہ رنجیت سنگھ پنجاب کے وہ عظیم رہنما تھے جن کی فتوحات نے اس کی سرحدوں کو پشاور سے ملتان اور دوسری طرف افغانستان اور کشمیر تک پھیلا دیا تھا۔ وہ پنجاب کی دھرتی کا سپوت تھا مگر کیا کیا جائے کہ ہم تاریخ کو بھی مذہب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ رنجیت سنگھ مذہبی طور پر ایک سکھ تھے، مگر انہوں نے پنجاب کو ایک سکھ ریاست سے سیکولر ریاست بنانے کی کوشش کی تھی۔ چھوٹی عمر سے ہی انہوں نے پنجاب میں سکھ تاریخ کی پہلی ریاست قائم کی جو 50سال تک قائم رہی، رنجیت سنگھ سے قبل سکھ قوم جتھوں اور دھڑوں میں تقسیم تھی مگر اس کے بعد سکھ قوم خالصہ جتھہ میں متحد اور یکجا ہو گئی یہ اتحاد آج بھی قائم ہے اور سکھ قوم مسلسل اپنی الگ ریاست کیلئے جدو جہد میں مصروف ہے۔ خالصتان تحریک بھی اسی عزم اور جذبے کی مرہون منت ہے جو رنجیت سنگھ سکھ برادری میں پھونک گئے تھے، 18ویں صدی کے آخر ی سالوں میں جب مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی توہندوستان پر قبضے کے خواب نے تمام ہندو راجوں کو متحد کر دیا اوران کا اقتدارہندوستان پر اس حد تک قائم ہو گیا کہ مغل بادشاہ، شاہ عالم کے بارے میں یہ کہاوت مشہور ہو گئی ”شاہ عالم، از دلی تا پالم“ پالم وہ جگہ ہے جہاں آجکل دلی ائرپورٹ ہے، ایسے میں شاہ ولی اللہ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالی افغانستان کی سر زمین سے بھاری فوج کے ساتھ حملہ آور ہوئے اور مرہٹوں کی شکل میں تمام ہندوستان کی متحدہ فوج کو شکست دیکر ہندوستان کو ہندو توا بنانے کا خواب چکنا چور کر کے افغانستان واپس روانہ ہو گئے، ابدالی کے جانے کے بعد پورے بر صغیر میں مرکزیت کا خاتمہ ہو گیا، ہر کوئی اپنے اپنے علاقے کا بالادست حکمران بنتا چلا گیا، جس خطے میں سب سے زیادہ بے چینی تھی وہ پنجاب تھا۔
سکھ اکبر کے دور سے ہی جتھوں کی صورت میں مسلح جدوجہد کر رہے تھے،اور بڑی حد تک گوریلا جنگ میں منظم ہو چکے تھے،ان کے ہر علاقے خاندان برادری کے حساب سے گروہ تشکیل پا چکے تھے، ان گروہوں کو مسل کہا جاتا تھا، پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مسلیں تھیں، سب کی سب خود مختار اور ایک دوسرے سے بر سر پیکار،مگر جب کبھی باہر سے حملہ ہوتا تو تمام مسلیں مل کر اس کا مقابلہ کرتی تھیں۔ ان ہی بارہ مسلوں میں سے ایک مسل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی،جس کے سربراہ سردار مہا سنگھ تھے ان کے گھر 1780ء میں ایک لڑکا پیدا ہوا، جس کا نام رنجیت سنگھ رکھا گیا، ایک سال کی عمر میں خسرہ کی وجہ سے اس بچے کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی،بچے کو 12سال کی عمر میں ہی فوجی تربیت کیلئے استادوں کے سپرد کر دیا گیا،17سال کی عمر میں باپ نے دوسری مسلوں کیساتھ جنگوں پر روانہ کر دیا کہ سردار مہا سنگھ خود ایک مسل سکر چاکیا کا سربراہ تھا،اور اس کا تعلق بڑے سکھ جتھے ڈوگرہ کے مقابل دوسرے بڑے اور برسر پیکار جتھے سندھیانوالے سے تھا۔ صرف 20سال کی عمر میں رنجیت سنگھ اپنی مسل کا سربراہ بن گیا، مسل کی سربراہی ملتے ہی ذہین اور خوش قسمت رنجیت سنگھ ایک بڑی سلطنت کا خواب دیکھنے لگا، اپنے اس ارادے کی تکمیل پر اس نے نہ صرف سوچ بچار کی بلکہ پیش قدمی شروع کر دی، ہریانہ سے ملتان،پشاورسے کشمیر تک کے علاقے کا طاقتور ترین حکمران بن گیا۔
رنجیت سنگھ کی پیدائش سے پہلے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہمراہ ایک منظم برطانوی فوج ہندوستان کی سرزمین پر اپنی کاروائیوں کا آغاز کر چکی تھی، قبل ازیں برصغیر میں مختلف لوگوں کو پانچ ہزاری دس ہزاری کے منصب دیئے جاتے تھے جو جنگ کی صورت میں افرادی قوت فراہم کرتے،کسی بھی راجواڑے میں باقاعدہ منظم تربیت یافتہ فوج کا کوئی رواج نہ تھا۔ رنجیت سنگھ جدید تربیت یافتہ منظم فوج کے قیام کا خواہش مند تھا، اس مقصد کیلئے اس نے فرانس، اٹلی سے جنگ اور تربیت کے ماہر چار جرنیلوں کواپنی فوج کی تربیت کیلئے بلوایا، ان جرنیلوں نے سکھوں کی ایک فوج منظم کی جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا، اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں شالا مار باغ کے قریب تھا جسے بدھو کا آوا کہا جاتا تھا جس کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔ فوج کی تنظیم و تربیت کرتے وہ بھول گیا کہ ریاست کو بہتر انداز سے چلانے رعایا کو منظم رکھنے امن و امان کیلئے ایک اچھی انتظامیہ اور عدلیہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک مملکت میں پیدا ہونیوالے ہر مسئلے کا حل فوج کا استعمال کر کے نکالا جا سکتا تھا، وہ چھوٹے چھوٹے انتظامی امور کیلئے بھی فوج کو بھیجتا، مالیہ کی وصولی،ڈکیتی چوری،قبائل میں جھگڑا، ہر موقع پر فوج سے کام لیا جاتا، انصاف کی فراہمی کا بھی کوئی الگ سے ادارہ تھا نہ نظام، جگہ جگہ فوجی عدالتیں لگائی جاتیں اس کے باوجود فوری انصا…
0 comments:
Post a Comment